جو روٹ کا سنہری سال 2025: ون ڈے انٹرنیشنل میں شاندار کارکردگی

جو روٹ کا سنہری سال 2025: ون ڈے انٹرنیشنل میں شاندار کارکردگی


انگلینڈ کے مڈل آرڈر بیٹر جو روٹ نے سال 2025 میں اپنی ون ڈے انٹرنیشنل کارکردگی سے شائقین کرکٹ کو حیران کر دیا ہے۔ یہ سال ان کے کیریئر کا اب تک کا سب سے کامیاب سال ثابت ہو رہا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق، روٹ نے صرف 11 اننگز میں 668 رنز بنا ڈالے ہیں۔ ان کی بیٹنگ اوسط 74 اور اسٹرائیک ریٹ 96 رہا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ نہ صرف لمبی اننگز کھیل رہے ہیں بلکہ تیز رفتاری سے بھی رنز بنا رہے ہیں۔

جو روٹ کی فارم کا راز

روٹ ہمیشہ سے اپنی تکنیک اور ٹائمنگ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن 2025 میں وہ مزید نکھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان کی اننگز میں تسلسل، فٹنس اور مثبت ذہنیت نمایاں رہی ہے، جس کی بدولت وہ مشکل حالات میں بھی ٹیم کو سہارا دیتے نظر آتے ہیں۔

انگلینڈ کرکٹ کے لیے اہمیت

انگلینڈ کی ٹیم ورلڈ کپ اور بڑی سیریز کی تیاری کر رہی ہے، ایسے میں جو روٹ کی شاندار فارم ٹیم کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اگر وہ اسی رفتار سے کھیلتے رہے تو یہ سال ان کے کیریئر کا یادگار ترین سال ثابت ہوگا۔جہ

2025 کا یہ سال جو روٹ کے نام رہا ہے۔ شائقین کرکٹ کو امید ہے کہ آنے والے میچز میں بھی وہ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے انگلینڈ کو مزید فتوحات دلائیں گے۔

اگر کوئی کھلاڑی انجری کا شکار ہو جائے تو اُس کی جگہ بابر کو رپلیسمنٹ کے طور پر رکھا جائے گا

 اگر کوئی کھلاڑی انجری کا شکار ہو جائے تو اُس کی جگہ بابر کو رپلیسمنٹ کے طور پر رکھا جائے گا

جب سے پاکستان ٹیم کا اسکواڈ اناؤنس ہوا ہے اُس دن سے ایک ہی بات کی جا رہی ہے کہ اگر کوئی کھلاڑی انجری کا شکار ہو جائے تو اُس کی جگہ بابر کو رپلیسمنٹ کے طور پر رکھا جائے گا۔ یا پھر اسکواڈ اناؤنسمنٹ سے پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ اگر فخر انجری سے ریکور نہ کر سکا تو تب بابر کو ٹیم میں شامل کیا جائے گا ورنہ نہیں۔

اب ذرا غور کریں تو یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بہترین بیٹر، بلکہ دنیا کے بہترین بیٹر کو صرف اس بنیاد پر رکھا جائے کہ کوئی دوسرا کھلاڑی فٹ نہ ہو تو وہ "رپلیسمنٹ" کے طور پر کھیل سکے۔ یہ سوچ رکھنے والوں کو واقعی شرم آنی چاہیے۔ بابر جیسے کھلاڑی کی جگہ تو اسکواڈ میں آٹومیٹک بنتی ہے، نہ کہ کسی اور کی انجری کا انتظار کیا جائے۔

بابر نے دنیا کے بڑے بڑے ریکارڈز توڑے، بیٹنگ میں اپنی کلاس اور ٹیکنیک کی وجہ سے دنیا بھر کے کوچنگ سینٹرز میں اُس کے اسٹروکس دکھائے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ باقی کھلاڑیوں کی تکنیک کیوں نہیں پڑھائی جاتی؟ کیوں صرف بابر کی بیٹنگ کو بطور مثال لیا جاتا ہے؟ وجہ صاف ہے کہ وہ اپنی نسل کا سب سے مکمل بیٹر ہے۔ یہاں تک کہ بھارت اور باقی ملکوں کے کھلاڑی بھی اُس کی مثال دیتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ جب جاوید میانداد، سعید انور، یوسف، یونس، انضمام اور عمران خان جیسے بڑے لیجنڈز بابر کی تعریف کرتے آئے ہیں تو پھر آج کے "ایکس ایوریج کرکٹرز" کے پروپیگنڈے پر یقین کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟

یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں جو کھلاڑی اپنے دور میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دے سکے، آج وہی لوگ میڈیا پر آکر بابر کے خلاف بول رہے ہیں تاکہ عوام کو بیوقوف بنایا جائے۔ وہ بابر سے حسد کرتے ہیں، کیونکہ اُس نے وہ سب کچھ کر دکھایا جو وہ اپنے دور میں نہ کر سکے۔ بابر نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا، انڈیا کی "کرکٹ بادشاہت" کو چیلنج کیا، اور انڈیا کو پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں شکست دے کر تاریخ رقم کی۔ یہ سب کچھ ایک ایسے کھلاڑی نے کیا جسے آج اسکواڈ سے باہر رکھنے کے بہانے تلاش کیے جا رہے ہیں۔

اصل میں یہ ایک "مکمل منصوبہ بندی" ہے۔ بابر کو پہلے کپتانی سے ہٹایا گیا، اُس پر ہر طرح کا دباؤ ڈالا گیا، پروپیگنڈہ کیا گیا، میڈیا کو خریدا گیا، سابق کھلاڑیوں کو استعمال کیا گیا، حتیٰ کہ موجودہ ٹیم کے لڑکوں سے بھی زبردستی بابر کے خلاف بیانات دلوائے گئے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ بابر کو ٹیم سے باہر نکال دیا جائے۔ اور افسوس یہ ہے کہ کچھ لوگ خود اُس پروپیگنڈے کا حصہ بن گئے اور اپنے ہی اسٹار کے خلاف کھڑے ہوگئے۔

اب جب اسکواڈ میں 17 کھلاڑی شامل کیے گئے ہیں تو کیا واقعی اُن سب کا معیار بابر سے بلند ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بابر کی ایوریج اور اسٹرائیک ریٹ اُن میں سے زیادہ تر کھلاڑیوں سے بہتر ہے۔ صرف چند کھلاڑی ایسے ہیں جن کا اسٹرائیک ریٹ زیادہ ہے لیکن اُن کی ایوریج کہیں پیچھے ہے۔ پھر بھی بابر کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، صرف ضد اور ذاتی رنجش کی بنیاد پر۔

یاد رکھیں، دنیا کی کوئی بڑی ٹیم اپنے "بیسٹ بیٹر" کو یوں باہر نہیں بٹھاتی۔ لیکن پاکستان میں کرکٹ کو ذاتی ایجنڈوں اور انا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ جب بابر نے کہا کہ ہر پچ پر حالات کے حساب سے بیٹنگ کرنی چاہیے تو اُس پر تنقید کی گئی، لیکن جب حسن نواز یا دوسرے یہی بات کرتے ہیں تو سب مان لیتے ہیں۔ جب بابر کے دور میں بولرز میچ ہرواتے تھے تو کوئی سوال نہیں اٹھاتا تھا، لیکن بابر سے کہا جاتا تھا کہ ہر میچ جیت کر دکھاؤ۔ اب جب وہ کپتان نہیں تو یکایک سب کو بولنگ پچز اور کنڈیشنز کا علم ہونے لگ گیا ہے۔


اصل حقیقت یہ ہے کہ بابر کو جان بوجھ کر ذہنی طور پر توڑا گیا تاکہ وہ کھیل سے دل برداشتہ ہو جائے۔ کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ اگر بابر کو ٹی20 میں کھلنے دیا گیا تو وہ ایسے ریکارڈز اپنے نام کرے گا جو پھر آنے والی نسلوں کے لیے توڑنا مشکل ہو جائے گا، بالکل ویسے ہی جیسے سچن اور ویرات کے ون ڈے کے ریکارڈز آج ناقابلِ شکست لگتے ہیں۔


بابر کو صرف 30 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے مشورے دیے جا رہے ہیں، جبکہ ویرات کوہلی 36 سال کی عمر تک کھیل کر دنیا کے عظیم کھلاڑیوں میں شامل ہوا۔ اگر بابر کو بھی ٹیم اور بورڈ کی سپورٹ ملی ہوتی، تو وہ پاکستان کے لیے مزید ورلڈ کپ جتوا سکتا تھا۔ لیکن یہاں الٹا اُس کے خلاف محاذ بنادیا گیا تاکہ اُس کی کامیابیاں رُک جائیں۔


ایسے ماحول میں بابر کے لیے بہتر یہی ہے کہ اگر اُسے مزید ٹارچر کیا جاتا ہے، اُس پر جان بوجھ کر میچز ہارنے کے دباؤ ڈالے جاتے ہیں، اور بار بار رپلیسمنٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، تو وہ خود ہی فیصلہ کرے اور ریٹائر ہو کر لیگز کھیلے۔ وہاں دنیا اُس کی بیٹنگ سے لطف اندوز ہوگی اور وہ بغیر کسی سازش کے کرکٹ کھیل سکے گا۔ کیونکہ عزت اور محبت اللہ دیتا ہے، کوئی انسان نہیں چھین سکتا۔ بابر پر اللہ کا خاص کرم ہے، اسی لیے آج بھی دنیا اُسے "ورلڈ کلاس بیٹر" مانتی ہے۔


اگر یہ سلسلہ نہ رُکا تو پاکستان کی ٹیم ویسٹ انڈیز سے بھی بدتر حالت کو پہنچ سکتی ہے۔ صرف ٹی20 پر فوکس کرنے اور اوسط کھلاڑیوں سے ٹیم بھرنے کا انجام یہی ہوگا۔ اور تب سب کو یاد آئے گا کہ بابر کو کس طرح سازش کے تحت ٹیم سے باہر کیا گیا تھا۔ مگر اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

بابر اس وقت بھی دنیا کے بہترین بیٹسمینز میں شمار ہوتا ہے، اور یہی بات اُس کے مخالفین برداشت نہیں کر پا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بابر کا نام پاکستان کے لیے ایک فخر ہے، اور اگر اُسے مزید کھیلنے دیا جائے تو وہ پاکستان کو ایک بار پھر دنیا کی ٹاپ ٹیمز میں شامل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہی سازشیں چلتی رہیں تو نقصان پاکستان کرکٹ کو ہوگا، بابر کو نہیں۔


امام الحق کی یورکشائر کیلئے یادگار کارکردگی: کاؤنٹی ون ڈے کپ میں چوتھی سنچری

 امام الحق کی یورکشائر کیلئے یادگار کارکردگی: کاؤنٹی ون ڈے کپ میں چوتھی سنچری

پاکستانی اوپنر امام الحق نے انگلینڈ کے کاؤنٹی ون ڈے کپ میں بھرپور فارم کا مظاہرہ جاری رکھتے ہوئے اپنے کیریئر کی چوتھی سنچری اس مقابلے میں شامل کی۔ انہوں نے یورکشائر کی نمائندگی میں سیمی فائنل میں ہیمپشائر کے خلاف شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے 97 گیندوں پر 105 رنز بنائے، لیکن بدقسمتی سے یہ اننگ وہ فتح میں تبدیل نہ کر سکے۔

بارش کی وجہ سے میچ محدود اوورز میں تبدیل ہوا، جس کے نتیجے میں یورکشائر کو ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت تیس فیصد کہ 254 رنز 41 اوورز میں درکار تھے، لیکن ہار کا سامنا کرنا پڑا۔

تجربے کی بات یہ ہے کہ امام الحق نے صرف آٹھ اننگز میں چار سنچریاں اور تین نصف سنچریاں بناتے ہوئے 688 رنز بنائے، جو اس مقابلے میں ان کی فارم کی بہترین مثال ہے۔ واضح ہے کہ وہ بیٹنگ کی بنیاد ہیں— نہ صرف یورکشائر کیلئے بلکہ اپنی ملکی مضموں میں بھی۔

وسیم اکرم کا بابر اعظم کو فارم میں واپسی کیلئے سنہری مشورہ

وسیم اکرم کا بابر اعظم کو فارم میں واپسی کیلئے سنہری مشورہ



پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم نے مایہ ناز بیٹر بابر اعظم کو فارم میں واپسی کے لیے اہم مشورہ دیا ہے۔ بابر اعظم حالیہ میچز میں رنز نہ بنا پانے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں اور مداح ان کی واپسی کے منتظر ہیں۔

وسیم اکرم کے مطابق بابر اعظم کو اپنی بیٹنگ پر اعتماد بحال کرنے اور کھیل کے انداز میں کچھ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بابر اعظم میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، لیکن مسلسل پرفارمنس دکھانے کے لیے ذہنی سکون اور مثبت سوچ لازمی ہے۔

سابق کپتان نے مشورہ دیا کہ بابر اعظم کو دباؤ کم کر کے قدرتی انداز میں کھیلنا ہوگا۔ اگر وہ اپنی بیٹنگ کے بنیادی اصولوں پر واپس آجائیں تو یقیناً جلد فارم حاصل کر لیں گے اور ٹیم کیلئے دوبارہ بڑی اننگز کھیلیں گے۔

پاکستانی شائقین کو بابر اعظم سے ہمیشہ بڑی امیدیں وابستہ رہتی ہیں، اور وسیم اکرم کے اس مشورے کو کرکٹ کے حلقوں میں مثبت انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر بابر اپنی تکنیک اور ذہنی اعتماد پر کام کریں تو وہ دوبارہ دنیا کے ٹاپ بیٹرز میں شمار ہوں گے۔





جنوبی افریقہ کرکٹ بورڈ کا دو رکنی جائزہ وفد لاہور پہنچ گی

جنوبی افریقہ کرکٹ بورڈ کا دو رکنی جائزہ وفد لاہور پہنچ گی


جنوبی افریقہ کرکٹ بورڈ کا دو رکنی جائزہ وفد 1 ستمبر 2025 کو لاہور پہنچ گیا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان میں ویمنز اور مینز کرکٹ ٹیموں کے لیے انتظامات اور لاجسٹک سہولتوں کا جائزہ لینا ہے۔


وفد کی ابتدائی ملاقات پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) کے حکام سے ہوگی اور بعد ازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان سے بھی ملاقات متوقع ہے۔

لاہور میں وفد کو "سیف سٹی" ماڈل کا دورہ کرایا جائے گا تاکہ شہر کے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا جا سکے۔


ویمنز کرکٹ ٹیم 12 ستمبر کو لاہور پہنچنے والی ہے، جبکہ مینز ٹیم اکتوبر–نومبر میں پاکستان کا دورہ کرے گی۔

لاہور کے بعد، وفد فیصل آباد اور اسلام آباد کا بھی دورہ کرے گا، جہاں اسے مزید بریفنگ دی جائے گی، اور آخر میں اپنی رپورٹ جنوبی افریقہ کرکٹ بورڈ کو پیش کرے گا۔


یہ جائزہ وفد پاکستان میں کرکٹ کی بحالی اور دوطرفہ علاقائی تعاون کے لیے ایک مؤثر قدم ہے۔ اس سے نہ صرف سیکیورٹی ماحول کی تصدیق ہوگی بلکہ مستقبل میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی پر مثبت اثر پڑے گا۔


Birthday wishes for your friends from Qasba Maral

Happy Birthday | Qasba Maral

🎉 Welcome to Qasba Maral Birthday Wishes 🎂

Enter your name to unlock a birthday surprise:


پاکستان کے خلاف ٹیم کی ناتجربہ کاری شکست کی بڑی وجہ بنی،آصف خان

پاکستان کے خلاف ٹیم کی ناتجربہ کاری شکست کی بڑی وجہ بنی،آصف خان 


شارجہ میں پاکستان کے خلاف شاندار بلے بازی کرنے والے یو اے ای کے مڈل آرڈر بیٹر آصف خان نے اپنی یادگار اننگز کے باوجود ٹیم کی شکست کی وجہ ناتجربہ کاری قرار دی۔

آصف خان نے 35 گیندوں پر 77 رنز بنا کر ٹیم کو امید دلائی، لیکن پریس کانفرنس میں کہا:

"ہماری حکمت عملی پاور ہٹنگ پر مبنی تھی، خاص طور پر آخری اوورز میں۔ لیکن پاکستان کی مضبوط بالنگ نے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔"

انہوں نے کہا کہ اگر محمد وسیم کا رن آؤٹ نہ ہوتا تو میچ کا نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔

شارجہ کو اپنا home ground قرار دیتے ہوئے آصف خان نے کہا کہ crowd نے بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ ان کے مطابق ٹیم نے بڑی ٹیموں کو ایک wake-up call دیا ہے اور وہ Asia Cup 2025 کے لیے پُرعزم ہیں۔

مزید گفتگو میں آصف خان نے کہا کہ یو اے ای کی اصل طاقت T20 format میں ہے، اور اگر وہ حریف ٹیم کو 170 یا 180 runs تک محدود کر دیں تو جیتنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔